تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری
قسط11
..................
وہ گردن جھکائے پرنسپل روم میں کھڑی تھی اس شخص نے اسکی زندگی کا تماشہ بنا کر رکھ دیا تھا....
"سر آپ ایسے جیسے بغیر جانچ پڑتال کے کیسے کیسے پر بھی بُرا ہونے کا الزام لگا سکتے ہیں؟ شایان کا تو دماغ ہی گھوم گیا تھا ان تصویروں کو دیکھ کر ......
"میں ال ابھی سر کچھ بولتے کہ سمعان احمد اُنکی بات کو درمیان میں کاٹ کر اپنی بات رکھی تھی....
"میں مس جيرش روہیل خان سے نکاح کرنا چاہتا ہوں.. آنکھوں میں سنجیدگی تھی چہرے سے کوئی بھی اُسکی تاثرات کا پتہ نہیں لگا سکتا تھا...
شایان نے جھٹکے سے سمعان کی طرف دیکھا سارہ کا بھی کچھ یہ ہی حال تھا اور سعد صاحب کو تو اپنے ہاتھوں سے سب کچھ جاتا نظر آیا تھا......
سر اقبال نے حیرت سے سمعان کا چہرا دیکھا ....
"سمعان بیٹا یہ آپ کیا بول رہے ہیں؟ سر اقبال کو بلکل بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ سمعان جیسا لڑکیوں سے سو کوس دور رہنا والا یہ نوجوان لڑکا آج خود ہی ایسی لڑکی کے لئے نکاح کا پیغام دے سکتا ہے جسکی پوری ذات پوری یونی میں اسکینڈل بنی پڑی ہو...
"سر میں جو بولا اور آپنے جو سنا یہاں کھڑے شخص کو جو بھی سنائی دیا وہی میں نے بولا ہے اور پلذّذ مُجھسے سوال جواب نہ کریں...."وہ سنجیدگی سے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کر رہا تھا.......
اُسکے بعد تو سر اقبال بھی کُچّھ نہیں بول پائے تھے.. سمعان نے اُس سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا.......
"اوۓ لڑکے جی تمہارا کام ہے یہاں وُہ کرو تُم.. یہ میرا اور اس لڑکی كا مسئلہ ہے تمہارا اُس میں کوئی بھی کام نہیں ہے..."
سعد صاحب کا دل کر رہا تھا کہ اس لڑکے کو کہی دور پھینک آئے........
"میرا مسلہ نہیں تو آپکا بھی نہیں ہے سمجھے اور اگر اب اپنے انکے آس پاس بھی نظر آئے تو میں بھول جاؤں گا کہ آپ مُجھسے بڑے ہے.....
جيرش روہیل خان کی ذات کو سبنے چہ میگوئیاں بنائی ہوئی تھی.....
اب اور مذید اسمیں ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی ذات کو چہ میگوئیاں بنتے دیکھ سکے....
"انف انف !! بس بہت ہو گیا..... آپ لوگوں نے مجھے کیا سمجھا ہوا ہے ؟ میں انسان نہیں ہوں یا پھر مجھ میں دل نہیں ہے.... یا میں کوئی کھلونا گڑیا ہوں ؟ ہاں !
وُہ دھاڑ نے کے سے انداز میں چلّائی تھی آنکھوں کُچّھ کر دینے کا غصّہ واضح دکھ رہا تھا جیری ک دل کر رہا تھا یہاں کھڑے ہر شخص کو اپنے سینے میں جلنے والی آگ سے جلا کر خاکستر کر دیں..
میں خاموش ہوں اسکا مطلب نہیں کہ میں ڈر گئی ہوں میں روہیل خان کی بیٹی ہوں اور میرے بابا کا لہو مجھ میں دوڑ رہا ہے میں نہیں ڈرتی کسی سے بھی .."
"اور آپ سے تو بلکل بھی نہیں ! وُہ انگلی اٹھاتے ہوئے سعد صاحب کی طرف موڑی تھی ....
"میں خاموش اب تک صرف اس لیے تھی کہ یہ آپکے اور میرے درمیان کا مسلہ تھا پر جب آپ نے اب خود ہی سارا پیغام لوگوں تک پہنچا دیا ہے سارے عام تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے تو یقین رکھیں اب میرا وُہ روپ آپ دیکھو گے جو کبھی نہیں دیکھا ہوگا........." اُسکی آنکھوں سے لہو چھلک رہا تھا.......
"عورت ذات کو کبھی کمزور سمجھنے کی بھول نہ کرنا... اگر یہ نازک دل ہونے کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں چوڑیاں پہننا جانتی ہے ،اپنی کلائیاں نازک رکھنا جانتی ہے، صرف جب تک ،جب تک وہ محبّت میں گندھی اُسکی چادر میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے پر جس دن یہ ذات نازک دل سے پتّھر دل بن جاتی ہے تو ہاتھ میں خنجر پکڑ کر اپنی عزت پرالزام لگانے والوں کا سر قلم کرنا بھی جانتی ہے......"
اُسکی آنکھوں میں اتنی سرد مہری تھی کہ ایک پل کو سعد صاحب بھی خوف سے وہیں جم گئے تھے.. آنکھوں سے اُسکی شعلے بھڑک رہے تھے جبکہ پورا وجود ایک چلتی بریک دھار والی تلوار بنا کھڑا تھا..
وُہ رکی نہیں تھی وہ وہاں سے چلی گئی تھی پیچھے سعد صاحب بس اسکو دیکھتے رہ گئے تھے... جبکہ سارہ کو تو خوشی ہوئی تھی بہت آج اُسکی دوست نے اپنے لیے سٹینڈ لیا تھا.......
وُہ بھی اُسکے پیچھے پیچھے باہر نکل گئی تھی....
"سعد صاحب ایک اہم بات اب کچھ کرنے سے پہلے آگے کا سوچ لینا...." یہ شایان تھا بولنے والا جبکہ سمعان نے ایک شعلے بھڑکتی آنکھوں سے سعد صاحب پر ڈالی تھی......
یہ ابنِ آدم کیسے ہوتے جا رہے ہیں..؟ یہ معاشرہ کی سوچ کیسی ہوتی جا رہا ہے؟
ارے تمسے اچھا تو ابلیس تھا وہ انسان کے سامنے جھکنے پر ہی تو تیار نہیں تھا لیکن اللہ کے سامنے تو جھک رہا تھا نہ وہ... بس ایک حکم نہ ماننے پر اللّٰہ نے اسکو ابلیس کا نام دے دیا پر یہ ابنِ آدم....
ابلیس کا رویہ تھا کہ وہ اپنی غلطی پر سرمندہ نہیں تھا اور ہم ابنِ آدم کا رویہ ایسا ہے کہ کسی معصوم کی عزت کی دھجیاں اڑانے میں منٹ نہیں لگاتے اسکو زلیل کر کے رکھ دیتے ہیں.....اپنی کی گئی غلطی کو اُس پر تھونپ دیتے ہیں اور اگر کوئی اپنی غلطی کرکے شرمندہ ہو کر معافی مانگ لیں تو پھر واہ واہ یعنی بیچارے کو زلیل کر کے رکھ دیتے ہیں..... یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا کام اس معاشرے نے اپنایا ہوا ہے.....
جہاں مرد عورت کے لیے اُسکا محافظ ہے وہیں مرد اُسکے لیے ابلیس بھی ہے... ایک طرف باپ ، بھائی اور شوہر بن کر عورت کی عزت کا محافظ اُسکا سپے سالار ہے وہیں ایک بھیڑیا بن کر اُسکی عزت کی دھجیاں بکھیرتا ہے......
"کیوں ؟
.....................💔💔💔💔
وہ سیدھی گھر آئی تھی اب اُسکا کوئی ارادہ نہیں تھا وہاں رکنے کا نا کوئی جواز بچا تھا.......
اُسنے ارادہ کر لیا تھا.....
وُہ جلدی سے اپنے کمرے میں آئی الماری کھول کر نیچے کے حصّے سے ایک لیٹر نکالا.....
یہ لیٹر اسکو اُسکے نانا نے جب دیا تھا جب وہ پندرہ سال کی تھی......
وُہ اسکو سینے سے لگائے رونے لگی..... سسکیوں میں گھٹی گھٹی آواز ... جو سسکیوں میں ہی دب کر رہ گئی تھی......
"بابا !! سسکیوں کے درمیان سے زبان سے ادا ہونے والا لفظ بابا تھا جہاں اُسکا دم ٹوٹ گیا تھا... آنسوں رخسار پر بھل بھل بہ رہے تھے.. جنکو اُسنے پوچھنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی تھی......
وہ پوری رات روتی رہی نا جانے رات کا کون سا پہر تھا جب اُسکی آنکھ لگی تھی اور وہ سر بیڈ کے کونے سے لگائے ٹھنڈے تھار فرش پر ہی سو گئی تھی......
.....................💖💖💖
اگلے صبح صبح وہ رحمان خان انکل کے گھر کے سامنے کھڑی تھی ہاتھ میں لفافہ لیے وہ انٹرنس گیٹ کی طرف دیکھتی بہت نروس دکھائی دے رہی تھی....
وُہ نہیں جانتی تھی اُنکو پھر بھی وُہ یہاں ایک اُمید لیے آئی تھی......
اُسنے گیٹ نوک کیا تو گارڈ نے گیٹ میں سے اپنا صر باہر نکال کر اسکو سر تا پا دیکھا اور پھر عجیب سے لحظے میں بولا.......
"کیا ہے کس سے ملنا ہے او میڈم آپنے ؟
وُہ اُسکے لحظے سے گھبراتے ہوئے پوچھا..."کیا یہ رحمان خان کا گھر ہے ؟ ڈرتے ڈرتے سوال کیا گیا تھا...
"ہاں ہے لیکن بی بی تُم کون ہو؟ لتھ مار جواب دے کر سوال پوچھا گیا تھا.....
"م م میں !! وہ کچھ بولتی کہ کوئی انٹرنس گیٹ کی طرف آیا تھا ...
"راحیل ایسے کس سے بات کر رہے ہو تم ؟ وہ کوئی اکیس بائیس سال کا لڑکا تھا ....
صاحب جی و !! ہٹوں میں دیکھتا ہوں وہ اُسکی نظرانداز کرتے ہوئے گیٹ سے باہر آیا تھا اور پھر ...
"کون ؟ بولت ہوئے اُسنے جیری کی طرف دیکھا تھا...
"جیری آپ ! ایک خوشگوار لہر اُس شخص کے اندر سرائیت کر گئی تھی.....
"جیری کو بھی اسکو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ..
"محسین یہ آپکا گھر ہے کیا ؟ اُسنے سوال داغ کیا..
"ارے کہاں مجھ غریب کا گھر کہاں ہے یہ ! یہ تو مجھ غریب کے بابا سائے کا گھر ہے جس میں بد قسمتی سے میں رہتا ہوں !!
وُہ ہنستے ہوئے بولا جبکہ اُسکی بات پر جیری نے اپنا سر پیٹا تھا ...
اُسنے کیشے سوچ لیا تھا کہ محسین اُسکے سوال کا جواب سیدھے طریقے سے دے گا......
"اچھا.. !!
"تُم بتاؤ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ محسین نے جیری کو دیکھ کر پوچھا تھا ابکی بار اُسکے چہرے سے اُلجھن چھلک رہی تھی.......
"محسین یہ رحمان انکل کا ہی گھر ہے نہ؟ اُسنے پوچھا......
"لو بھئی پوچھ لو پورا کا پورا رحمان خان کا بیٹا تمہارے سامنے کھڑا ہے اور تُم پوچھ رہی ہو کہ یہ رحمان انکل کا گھر ہے نہ !!
"یا اللّٰہ تمہارا نہیں ہو سکتا کچھ بھی ! اُسنے اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر بڑ بڑائی تھی......
"اوبوئسل یار یہ اُنکا ہی گھر ہے ! وہ بلکل سنجیدہ ہو گیا تھا کیونکہ اسکو جیری بھی پریشان نظر آئی تھی.....
"مجھے اُنسے ملنا ہے.." اُسنے سپاٹ چہرے سے اسکو دیکھتے ہوئے کہا.......
"سب ٹھیک تو ہے نہ ؟ جبکہ محسین نے اُس سے پوچھا تھا...
"وُہ تو مجھے بھی نہیں پتہ ! انکل سے ملنے کے بعد بتاؤں گی.." جواب دیا گیا....
"اچھا آؤ میرے ساتھ !! وُہ اسکو اپنے ساتھ لیے لاؤنج میں آ گیا تھا.......
لاؤنج میں سب ہے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے جب اُنکی نظر سامنے سے آتے محسین کے ساتھ ایک لڑکی پر پڑی تھی......
بھابی یہ محسین کسکو ساتھ لے کر آ رہا ہے؟ محسین کے بڑے بھائی کی بیوی یعنی محسین کی بھابی نے اپنی دیورانی سے پوچھا...
"پتہ نہیں رمنہ یہ کسکو ساتھ لا رہا ہے؟ آج یہ تو گیا کام سے... محمونہ نے رمنہ کی طرف ہنستے ہوئے کہا تھا.......
"ہمم بھابی سچی میں اللّٰہ نے ہمکو دیور نہیں بلکہ بہت بڑا دنیا کا آٹھواں عجوبہ عطا کیا ہے..
وُہ دونوں ہنس رہی تھی اور یہ بات جیری نے بھی سنی تھی... اسکو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہوا تھا جبکہ وہ کر رہی تھی... محسین نے اپنی بھابیؤں
کی طرف گھورا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جتایا تھا "کہ اب کروانا آپ دونوں مُجھسے کوئی بھی کام... آخر کو کام بھی یہ آٹھواں عجوبہ ہی آتا ہے آپ دونوں کے.."
اُسکی گھوری پر دونوں کو بریک لگی جبکہ رمنہ تو سیدھی ہی ہو کر بیٹھ گئی تھی........
"اور دیور جی یہ خوبصورت لڑکی سے ہمارا تعارف نہیں کرواؤ گے؟ آنکھ مارتے ہوئے رمنہ نے پوچھا تھا جبکہ نظر جیری کا طواف کر رہی تھی.....
"بھابی یہ ہے جیری سارہ افف چڑیل کی دوست ! ایک اور جھٹکا لگا جیری کو...... اُسنے محسین کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ یہ سارہ کا گھر ہے کیا..؟
اُو و اچھا !! محمونہ نے اُو و و کو لمبا کھینچا تھا....
"جیییی !! وُہ اچھے سے جان گیا تھا اس اُو کا مطلب اس لیے دانت پیستے ہوئے اُسنے انہی کے انداز میں جی کو لمبا کھینچا تھا......
تبھی رحمان صاحب سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے آئے تھے اُنکی نظر جب سامنے پڑی تو اُنکو لگا جیسے یہ نین نقش کہیں دیکھا ہے ؟
"محسین یہ بچی کون ہے؟ رحمان صاحب نے بڑے ہی روب دار انداز میں پوچھا تھا.....
"و و بابا سائے ! ایک دم پوچھنے پر وُہ تو بھیگی بلّی ہی بن گیا تھا... ایک یہ تو شخصیت تھی جن سے محسین خان خان سے سیدھا بھیگی بلّی بنتا تھا.......
اسکو دیکھ کر جیری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی جسکو اُسنے تورنت چھپایا تھا.....
"انکل یہ لیں !! جیری نے محسین کے جواب دینے سے پہلے ہی ہاتھ میں پکڑا لفافہ رحمان صاحب کی طرف بڑھایا .. رحمان صاحب نے جیری کی طرف نا سمجھی سے دیکھتے ہوئے لفافے کو پکڑا تھا.. اور اسکو کھول کر پڑھنے لگے.......
"السلام وعلیکم بھائی
"کیسے ہے آپ سب؟ اُمّید ہے کہ بہت اچھے ہوگے.!!
مجھے نہیں پتہ کس عمر میں کب آپ سے یہ لڑکی ملے گی پر یقین مانیے بھائی یہ لڑکی آپکی بیٹی یعنی آپکے چھوٹے بھائی روہیل خان کی بیٹی ہوگی جیرش روہیل خان !!
گلابی آنکھوں والی میری شہزادی جسکو میں بےانتہا محبّت کرتا ہوں... بھائی میں اپنا یہ پھول آپ سبکے سپرد کر رہا ہوں .. مجھے پتہ ہے شاید بابا اسکو نا اپنائے لیکن بھائی مجھے آپ پر یقین ہے کہ آپ کبھی میرے مان کو ٹھیس نہیں پہنچائے گے جس اُمّید سے میں نے یہ خط لکھا ہے آپکو اسکو کبھی نہیں توڑے گے .... بھائی جب تک یہ خط آپکے پاس پہنچے گا میں اس دنیا میں نہیں ہوں گا....
آپ سبکو یہ روہیل بہت یاد کرتا ہے.. آپ سب کا چھوٹا بھائی روہیل خان ...
اللھ حافظ..
رحمان صاحب کی آنکھوں میں بے تحاشہ آنسوں تھے سب پریشان سے کھڑے کبھی اس لڑکی کی طرف دیکھتے کبھی رحمان صاحب کی طرف ...
"بابا کو کیا ہوا؟ رمنہ نے محمونہ سے سرگوشی میں پوچھا....
"پتہ نہیں !! جواب کندھے اچکا کر دیا گیا....
"میری بچی !! ایک دم سے جیری کو رحمان صاحب نے اپنے اندر بھینچ لیا تھا... جیری بھی حیران پریشان سی اُنکے سینے سے لگی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لیے گھٹ گھٹ کر رونے لگی....
جیری کو رحمان صاحب کے سینے سے لگ کر ایک سکون اُسکے وجود میں سرائیت کر گیا تھا....
رحمان صاحب نے اُسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا... اور خود پر ضبط باندھتے ہوئے بولے ....
"چپ کا جا بچہ آپکا تایا ابّوں ابھی زندہ ہے ..! اور بسس یہ سنتے ہی محسین کو لگا تھا چار سو چالیس کا جھٹکا........
"کیا ! پر بابا یہ یہ تو ؟ وہ کچھ بولتا کہ رحمان صاحب بولے.....
"کیا یہ تو ؟ یہ آپکی چھوٹی بہن آپکے چاچو کی بیٹی روہیل خان کی بیٹی اور امتیاز خان کی پوتی ہے ..... اسکو گھورتے ہوئے بتایا گیا تھا... اور یہ سنتے ہے محسین نے ڈالنے شروع کر دیے تھے.....
"یییئےئے !!! بند کر بدتمیز وُہ مہمونہ کے ارد گرد اسکو چھیڑتے ہوئے بھنگڑے ڈالنے میں مشغول تھا...
پوری فیملی ہی اُس سے دل کھول کر ملی تھی جبکہ اسماء آنٹی تو بہت خوش تھی.....
"بیگم بیٹی کو کچھ کھلاؤ پلاؤ ..یا ایسے ہی بٹھاؤ رکھو گی؟ رحمان صاحب نے مسکراتے ہوئے اسماء بیگم سے کہا تھا...
"جی جی بلکل میری بیٹی آئی ہے اور میں اسکا خیال نہیں رکھیں گی تو کون رکھے گا؟ اسماء بیگم مصنوعی گھوری سے نوازتے ہوئے بولی......
"ماما مجھے نہیں بھولنا بیٹی کے آنے کے بعد ! محسین نے منہ بصورتے ہوئے کہا تھا......
"نہیں دیور جی وُہ دن بھول جائے جب آپ چھوٹے بچے بنے پھرتے تھے اب ہماری نند صحابہ نے آپکی جگہ پر قبضہ کرلیا ہے..... سو گیٹ لاسٹ . ہاہاہا ہاہاہا...
سب ہی وہاں ہنس پڑے تھے جبکہ محسین کا چہرہ دیکھنے والا تھا.......
"کچھ ہی گھنٹوں میں سب نے جیری کو اتنی محبّت اپنائیت بخشی تھی کہ اسکو یہاں بلکل بھی اجنبی پن محسوس نہیں ہوا تھا.....
شام ہونے کو تھی جیری کو آئے آٹھ گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے اس بیچ سب نے اُسکا بہت خیال رکھا تھا......
"بڑی ماما میں اب چلتی ہوں.." وُہ صوفے سے کھڑی ہوتی بولی سب اُسکی آواز پر حیرانی سے اسکو دیکھنے لگے ....
"کہاں بیٹا ؟ رحمان صاحب نے پوچھا ...
بڑے بابا میں بابا کے اپارٹمنٹ میں رہتی ہوں اُنہونے وہ خاص میرے لیے بنوایا تھا... اُسنے سر جھکاتے ہوئے جواب دیا تھا.....
"بیٹا اب آپ کہیں نہیں جاؤ گی سمجھ آئی ! رحمان صاحب نے مصنوعی غصے سے کہا تھا اُنکے غصے میں بہت محبّت بھرا لمس تھا......
"جی بابا پر میں وہاں سے اپنا کچھ ضروری سامان لانا چاہتی ہوں .." وہاں بیٹھے ہے نفوس کو دیکھتے ہوئے وُہ بولی......
"محسین جاؤ بہن کے ساتھ اور اُسکا سامان لے کر آؤ ...آرڈر دیا گیا......
"جی بابا ! محسین تو سر خم کیے کھڑا تھا.....
"چلو میری نئی نویلی بہنا جی ! مسکرا کر بولا گیا اُسکی بات پر جیری دل کھول کر مسکرائی تھی.....
کتنے خوبصورت ہوتے یہ اپنے خون کے رشتے انکے درمیان انسان اپنا ہر غم ہے درد بھول جاتا ہے.....
رشتوں میں جب اپنائیت ہو محبّت ہو تو زندگی مشکل سے بھی آسان ہو جاتی ہے.....
....................💖💖💖💖
وُہ جب اپنے اپارٹمنٹ سے سامان لے کر خان ویلہ پہنچی تو محسین کے بڑے دونوں بھائی وسیم اور کریم بھی آفس سے آ چکے تھے......
سب لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے، وسیم کریم اور رحمان صاحب آفیس سے متعلق ڈسکس کر رہے تھے جبکہ محمونا اور رمنہ اور اسماء بیگم باتیں کر رہی تھی محسین کے بھتیجہ بھتيزی کھیلنے میں مگن تھے ...
جیری کو آتے دیکھا تو رمنہ اسکو وہیں اور آواز دے کر بلا لیا تھا...
"جیری سامان ملازم رکھ دے گا تُم اِدھر ہی آ جاؤ !
"جی بھابی .. !! وُہ وہیں پر آ گئی تھی..... سب خوش گپیوں میں گم تھے.... محسین نئے نئے شوشے چھوڑ رہا تھا مطلب کہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہونے کا ثبوت دے رہا تھا............
ویسے بھابی آپکو پتہ ہے ایک بار ہم باہر گھومنے گئے تھے میں شایان اور سامی .. آپکو پتہ وہاں کیا ہوا تھا؟ اُسنے شرارت سے آنکھ کا گوشہ دبایا تھا....
ہم جب کلو منالی کی سیر کو نکلے تو وہاں بیچارے سامی کے پیچھے ایک انگریز کی چلتی پھرتی اولاد گھر سے فالتو اُنکے ممی ڈیڈی نے بول دیا ہو گا جا بیٹا ہم تو تُجھ سے پہلے ہی پریشان ہے جا جی لیں اپنی زندگی اور تباہ کر دیں لوگوں کا جینا ......
وُہ کئی ناموں سے نوازتا ہوا بول رہا تھا.... تو جب وہ سامی کے پیچھے لگ گئی اور بیچارے شامی کو تو آپ جانتے ہی ہیں وہ کتنا دور رہتا ہے لڑکیوں سے ؟ اُسکی باتیں کم ہوتی تھی بتانے کو بلکہ ڈیٹیلس زیادہ ہوتی تھی.......
اسکو غصّہ ہی آ گیا وُہ تنگ ہوتے ہوئے وہاں سے غصے میں ہوٹل چلا گیا تھا .... اور ہمارا اتنا اچھا ٹرپ اُس بے گھر اولاد کی وجہ سے خراب ہوا تھا....
میں ایسے ہے تھوڑی جانے دیتا اسکو میں نے بھی قسم کھا لی تھی کہ میں بھی بدلہ لوں گا ......
میں رات کو کسی کو بھی بتائے بغیر اسکو ملنے گیا تھا....... اُسکے ہوٹل روم کا دروازہ نوک کرتے ہوئے میں نے اپنا کیپ تھوڑا چہرے پر کیا تاکہ وہ میرا چہرا نہ دیکھ سکے.......
ویٹر کی ڈریس اور پہن لی تھی بڑی مشکل سے پچاس روپے کا لالچ دیا تھا ویٹر کو .....
"کیا پچاس روپے کا ہاہاہا ہاہاہا کیا دیور جی صرف پچاس روپے ہہہہ ہاہاہا ہاہاہا مہمونا اور رمنہ دونوں ہی زور زور سے ہنسنے لگی تھی جیری کا بھی کچھ یہ ہی حال تھا.........
"اچھا سنو تو .."وہ منہ بصورتے ہوئے بولا تھا.....
"ہہہہ رمنہ ہنستے ہوئے بولی ہاں بتاؤ بتاؤ !
"ہمم !! تو میں نے دروازہ نوک کیا تھا...... اُسنے گوری چتّی نے دروازہ کھولا ......
Hello ..!!
how are you ma'am
"ہیلو !کیسی ہے میم؟
I'm fine ... but who are you?
"میں ٹھیک ہوں ! ... لیکن آپ کون؟
Ma'am, I'm the waiter here. One of the 154 room no, ummmm, yes!! there's a boy in the 154 room. He said that if you can stand in the water all night without a jacket, he is ready to befriend you.
"میڈم ، میں یہاں ویٹر ہوں۔ 154 کمرے میں سے ایک ، امممم ، ہاں !! 154 کمرے میں ایک لڑکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ بغیر جیکٹ کے ساری رات پانی میں کھڑے رہ سکتے ہیں تو وہ آپ سے دوستی کرنے کے لیے تیار ہے.....
"آپکو پتہ ہے وہ مجھے ایسے جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسیری باڈی کا سٹی سکین کر رہی ہو....
اُس لڑکی نے تھوڑی دیر تک مجھے دیکھا تھا اور پھر وہ مُجھسے بولتی ہے کہ
How can i believe you?
"میں آپ پر کیسے یقین کروں؟
کمينی زلیل سچ میں ہی اپنی اوقات دکھا رہی ہے میں نے اسکو بہت بہت گالیاں دی تھی.......
میں بھی اپنے نام کا ایک تھا پوری تیاری کر کے گیا تھا ...
Ummm right said ma'am why would you believe me? But don't worry
"امم ٹھیک کہا میڈم آپ میری بات کیوں مانیں گی؟ لیکن فکر مت کرو.....
میں نے اُسکی طرف ایک لیٹر بڑھایا تھا.... اُسنے وُہ پڑھ کر میری بات ماننے کے لئے تیار ہو گئی تھی....
"ہاہاہا ہاہاہا.." محسین ہنسا تھا جبکہ اُن تینوں کا بھی یہ ہی حال تھا..... حالانکہ جیری کو ترس بھی آ رہا تھا اس بیچاری پر ........
"پھر کیا ہوا دیور جی ! رمنہ نے پوچھا......
"بھابی ہونا کیا تھا ؟ پھر وہ پاگل پوری رات ٹھنڈے پانی میں کھڑی ہو گئی تھی..... اور میں تو اُسکی ویڈیوں بنا کر سو گیا تھا.......
اُسکی بات پر اُسکی دونوں بھابیاں بہت ہنس رہی تھی... جبکہ جیری اس بار ہونکو کی طرح اُنکو دیکھ رہی تھی.......
.......................
Epi 11 has been published now... Go nd read n ur reviews.....